وقت کا قیدی

ریاض ایک عام سا آدمی تھا، جو دن رات کی مصروفیات میں اس قدر الجھ چکا تھا کہ زندگی صرف کام اور ذمہ داریوں کا بوجھ بن کر رہ گئی تھی۔ صبح دفتر جانا، شام کو تھکا ہارا واپس آنا، اور پھر اگلے دن کے لیے خود کو تیار کرنا – یہی اس کی زندگی تھی۔ نہ دوستوں کے لیے وقت تھا، نہ ہی اپنے خاندان کے لیے، اور سب سے بڑھ کر خود کے لیے بھی نہیں۔

ایک پراسرار دکان

ایک دن، حسبِ معمول وہ دفتر سے واپسی پر شہر کے ایک پرانے بازار سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک چھوٹی سی پرانی دکان پر پڑی، جس کا نام تھا: “وقت کے راز”۔ یہ دکان اس راستے پر پہلے کبھی نظر نہیں آئی تھی، حالانکہ وہ روزانہ اسی سڑک سے گزرتا تھا۔

دکان کے شیشے کے پیچھے ایک نہایت خوبصورت، قدیم طرز کی گھڑی رکھی تھی۔ گھڑی میں ایک الگ ہی کشش تھی، جیسے وہ اسے اپنی طرف بلا رہی ہو۔ اس کے سنہری ڈائل اور چمکتے کانٹے کچھ الگ ہی کہانی سنا رہے تھے۔

ریاض دکان میں داخل ہوا تو اندر ہر طرف پرانی گھڑیاں لگی ہوئی تھیں، جن میں سے کچھ عام تھیں اور کچھ انتہائی

عجیب و غریب۔ کاؤنٹر کے پیچھے ایک بوڑھا دکاندار بیٹھا تھا، جس کی سفید داڑھی اور گہری آنکھوں میں ایک پراسرار سی چمک تھی۔

جادوئی گھڑی

ریاض نے سنہری گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا، “یہ گھڑی کتنے کی ہے؟

بوڑھے نے مسکرا کر جواب دیا، “یہ عام گھڑی نہیں، یہ وقت کو قابو میں رکھ سکتی ہے۔

ریاض حیرانی سے بولا، “مطلب؟

اگر تم چاہو تو وقت روک سکتے ہو، تیز کر سکتے ہو، یا پیچھے لے جا سکتے ہو۔ مگر یاد رکھو، وقت کے ساتھ کھیلنا ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔

ریاض کو لگا کہ بوڑھا مذاق کر رہا ہے، مگر نہ جانے کیوں وہ اس گھڑی سے نظریں نہ ہٹا سکا۔ آخر کار، اس نے گھڑی خرید لی اور گھر چلا گیا۔

وقت رک گیا

گھر پہنچ کر اس نے شوق سے گھڑی کو دیکھا اور سوچا، “کیا واقعی یہ گھڑی وقت کو روک سکتی ہے؟

بس آزمانے کے لیے اس نے گھڑی کے نیچے موجود چھوٹے بٹن کو دبایا۔ اور جیسے ہی اس نے ایسا کیا، سب کچھ رک گیا

دیوار پر لگی گھڑی کی سوئیاں رک گئیں، باہر پرندے ہوا میں ٹھہر گئے، اور کھڑکی سے نظر آتی سڑک پر چلتے لوگ پتھر کے مجسمے بن گئے۔ ہر چیز رُک چکی تھی – وقت جیسے قید ہو گیا تھا

ریاض حیران رہ گیا۔ وہ سڑک پر نکلا، لوگوں کو غور سے دیکھا، سب بے حس و حرکت تھے۔ اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، “اب میرے پاس ہر کام کے لیے وقت ہوگا

مزے یا مصیبت

پہلے تو ریاض نے اس جادوئی گھڑی کو خوب انجوائے کیا۔ وہ اپنی مرضی سے وقت روکتا، جو چاہتا کرتا، اور پھر وقت دوبارہ چلا دیتا

اس نے گھڑی کو الٹا گھما کر وقت پیچھے بھی لے جانا سیکھ لیا۔ جب بھی کوئی غلطی ہوتی، وہ وقت پیچھے کر کے سب کچھ ٹھیک کر لیتا۔

لیکن جلد ہی اسے احساس ہوا کہ وقت کے ساتھ کھیلنا اتنا آسان نہیں۔ جب سب کچھ رک جاتا تھا، تب وہ خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی سے بات کرے، مگر سب ساکت تھے

آہستہ آہستہ، وہ تنہائی کا شکار ہونے لگا۔ اب اسے کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی تھی، کیونکہ ہر چیز اس کے قابو میں تھی۔ اس کی زندگی ایک عجیب جال میں پھنس چکی تھی۔

خوفناک حقیقت

پھر ایک دن اس نے سوچا، “کیوں نہ وقت کو ایک مہینہ پیچھے لے جایا جائے، تاکہ میں کچھ پرانی غلطیاں سدھار سکوں

اس نے گھڑی کو گھمایا، اور وہ ایک مہینہ پیچھے چلا گیا۔ مگر یہاں ایک مسئلہ تھا – جب وہ وقت کو پیچھے لے گیا، تو اس کی اپنی یادداشت بھی اس وقت کی ہو گئی۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا کہ وہ ایک ماہ آگے سے آیا ہے۔

یہاں تک کہ اسے اپنی جادوئی گھڑی کے بارے میں بھی کچھ یاد نہ رہا

اب وہ دوبارہ وہی غلطیاں دہرانے لگا، وہی بے وقت کی مصروفیات، وہی کام کا دباؤ، اور وہی پریشانیاں۔ ایک دن وہ پھر سے اسی دکان پر پہنچا، جہاں اس نے پہلی بار گھڑی خریدی تھی۔

اس بار بوڑھے دکاندار نے اسے گھڑی دکھائی، مگر وہ چونکہ سب کچھ بھول چکا تھا، اس نے دوبارہ وہی گھڑی خریدی

انجام یا نیا آغاز

یہ چکر بار بار چلتا رہا۔ ہر بار وہ وقت کو پیچھے لے جاتا، اپنی یادداشت کھو دیتا، اور دوبارہ گھڑی خریدتا۔ وہ وقت کا قیدی بن چکا تھا

مگر پھر، کسی نہ کسی طرح، ایک دن اسے یاد آ گیا کہ وہ اس چکر میں پھنس چکا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ وقت کے ساتھ کھیلنا بند کرے گا۔

اس نے گھڑی کو زمین پر پٹخ دیا، اور جیسے ہی گھڑی ٹوٹی، وقت ایک زوردار دھماکے کے ساتھ اپنی اصل رفتار پر آ گیا۔

وہ دوبارہ اپنے حال میں واپس آ چکا تھا – ایک عام زندگی، جہاں وقت سب کے لیے یکساں چلتا ہے، اور جہاں ہر لمحے کی قدر کرنی پڑتی ہے

اس دن کے بعد ریاض نے وقت کو ضائع کرنا چھوڑ دیا اور ہر لمحے کو پوری دلجمعی کے ساتھ جینا شروع کر دیا۔

Timer Example

Please Wait…

سبق

وقت کو قابو میں کرنے کے بجائے اس کی قدر کرنا سیکھو، کیونکہ وقت کو روکنے، پلٹانے یا تیز کرنے کی کوشش ہمیں صرف پریشانیوں میں ڈال سکتی ہے۔ زندگی کا اصل حسن وقت کے ساتھ چلنے میں ہے، نہ کہ اسے قابو میں رکھنے میں۔

1 thought on “وقت کا قیدی”

Leave a Comment